قمران کے طوماروں کی کہانی
بحیرہ مردار یا قمران کے طوماروں کااساسی تعارف
از
پروفیسر ڈاکٹر اسلم ضیائیؔ
ایم۔اے،ایم ڈیو، ایس۔ٹی۔ایم
یہ مضمون مسیحی اشاعت خانہ( ایم ۔ آئی۔ کے) لاہور کی شائع کردہ کتاب ’’تاریخِ عہدِ عتیق حصہ دوئم‘‘ سے اقتباس ہے ۔ ہم نیک نیتی کے ساتھ محض مفادَ عامہ کیلئےبلا معاوضہ اس مختصر مضمون کو قارئین اکرام کی نظر کررہے ہے۔
بحیرہ مرداریا قمران کے طومار
بحیرہ مردار سے مُراد پانی کا وُہ حصہ ہے جو دریائے یردنؔ کے دہانہ سے شروع ہوتا ہے اور تقریباً ترپن میل؛ لمبا ہے ۔ بعض مقامات پر اسکی چوڑائی دس میل کے قریب ہے ۔ اس کے مشرقی اور مغربی کناروں پر پہاڑی چٹانیں ہیں ۔یہ بحیرہ رومؔ کی سطح سے تقریناً تیرہ سو فُٹ نیچے ہے اور ماہرین کی رائے کے مطابق پانی کا یہ ٹکرا سطحِ زمین کا سب سے نچلا حصہ ہے۔عہدِ عتیق میں اسے’’دریائے شور‘‘کہا جاتاتھا(پیدائش3:14،گنتی3:34:12:3؛استثنا7:3؛یشوع16:3)۔
اسے’’میدان کا دریا‘‘ بھی کہتے تھے(استثنا17:3:49:4؛یشوع16:3؛3:12)۔بحیرہِ رومؔ کو فلسطینؔ کے مغرب میں واقعہ ہونے کی نسبت سے مغربی سمندر اور بحیرہِ مردار کو اسکے مشرق میں واقعہ ہونے کی وجہ سے ’’مشرقی سمندر‘‘ کا نام دیا جاتا تھا(حزقی ایل 8:48؛یوایل2:2)۔بحیرہِ مرادر کی اصطلاح پوسانیاس ؔاور یوسطین ؔنے سب سے پہلے دوسری صدی عیسوی میں یونانی اور لاطینی زبانوں میں استعمال کی۔ آجکل عرب باشندے اِسے’’ بحرِ لوط‘‘کہتے ہیں ۔اس کے شمال مغربی کنارے پر واقعہ بعض غاروں میں سے اِس صدی کے وسط میں کچھ چمڑے کے طومار دریافت ہوئے ہیں جن کا تعلق عہدِ عتیق کے عبرانی نسخوں، اپاکرفا، فرضی تضانیف اوربعض یونانی کتب اور تارگیم سے ہے۔ اس نسبت سے ان طوماروں کو بحیرہِ مرادر کے طومارکہتے ہیں ۔
یہ غار اُس وادی میں پائے گئے ہیں جو بحیرہِ مرادر کے شمال مغرب اور یروشلم کے درمیان واقع ہے۔ مقامی باشندے اسے’’وادیِ قمران‘‘ کہتے ہیں۔ اس وادی میں کسی زمانہ میں وہ لوگ آباد تھے جنہوں نے اِن غاروں میں اس ادب کو چھپایاتھا۔ اُن لوگوں کو ’’قمران کے لوگ‘‘ اور اِ ن طوماروں کو ’’قمران کے طومار‘‘ کہا جاتا ہے ۔
طوماروں کی کہانی
بحیرہِ مُردار کے طوماروں کی اصطلاح اُن دستاویزات کے لئے استعما ل ہوتی ہے جو بحیرہِ مرادر کے مغربی کنارے پر واقع غاروں میں سے1947ء اور اسکے بعد کے سالوں میں دریافت ہوئی تھیں۔ تاریخ گواہی پیش کرتی ہے کہ سکندریؔہ کے اورغینؔ نے جو تیسری صدی مسیحی کا کلیسائی بزرگ تھا اُس نے یریحوؔکے قریب ایک مرتبان میں پائے جانے والے بعض نسخوں کو استعمال کیا ۔ایک اور شہادت یہ ہے کہ بغداد کے ایک نسطوری کلیسیائی بُزرگ تیمتتھیس اول میں 800ءکے قریب عیلام ؔ کےے آرچ بشپ سرگیسؔ کو خط لکھاا کہ اُسے یروشلم کے کسی باشندے نے بتایا ہے کہ کسی عرب شکاری کا کتا یریحوؔ کے قریب کسی غار میں داخل ہوگیا ۔جب کتا واپس نہ آیا تو تو وہ خود بھی اس میں داخل ہوگیا اُس نے وہاں کافی تعداد میں طومارپڑے پائے۔ اُس نے یروشلیمؔ کے بعض یہودی علماءکو انکے بارے میں اطلاع دی اور وہ آکربہت سے طومارؔلے گئے جن میں سے بیشتر عہدِ عتیق کی کتب پر مشتمل تھے۔*خیال کیا جاتا ہے کہ یہ طومار ان لوگوں کی ملکیت تھے جنہیں ’’اسینی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس علاقہ میں جب 1950عیسوی کے عشرے میں کھدائی کا کام شروع ہوا تو ایک بڑی عمارت کے کھنڈرات بھی دریافت ہوئے ۔اس میں برتن سازی، کپڑا سازی، رنگ سازی کے نشانات بھی ملے۔ اسکے علاو دھوبی گھاٹ،نگارش گاہ اور ایک ستر فٹ لمبے ہال کی دریافت بھی ہوئی جسکے ایک کونے میں ایک سو کے قریب کھانے کے برتن پڑے تھے۔ ہال سے ملحقہ کمرہہ میں ایک ہزار کے قریب کھانے پینے کے برتن ملے ۔ اس سے احساس ہوتا ہے کہ جو لوگ یہاں بستے تھے وہ ایک برادری کی طرح رہتے تھے ۔ یہاں سے دریافت ہونے والی تحریروں اور ضوابط کا ایسی فرقے کے ضوابط سے گہرا تعلق ہے ، اور یہ دوگ دوسری صدی قبل مسیح سے پہلی صدی مسیحی تک وہاں آباد رہے۔ اگرچے طومار اِن غاروں میں صدیوں سے موجود تھے لیکن 1948 سے پہلے دنیا کو اسکا کوئی علم نہیں تھا کہ بائبل کے متن کے بارے میں اُس سے کیا انقلاب برپا ہوجائے گا۔
1948ء کے موسمِ بہار میں تین عرب چرواہے اس علاقے میں اپنی بھیڑ بکریاں چرا رہے تھے۔ ایک چرواہے کی بھیڑ گم ہوگئی تو وہ اُسے تلاش کرتے کرتے ایک غار کے قریب پہنچ گیا، مُحمد اذیب ؔ نامی اُس چرواہے لڑکے نے اُس غار کے اندر ایک پتھر پھنکا تو اُسے کسی برتن کے ٹوٹنے کی آواز آئی، چونکہ وہ لڑکا کم عمرتھا اور شام ہورہی تھی اس لئے وہ واپس چلا گیا۔ چند دنوں بعد کوئی خزانہ ملنے کی امید میں وہ لڑکا اُس غار کےاندر اتر گیا۔ اُسے وہاں دس دس انچ چوڑے اور پچیس سے انتیس انچ اونچے چند مرتبان نظر آئے اُس نے اُن سے کپڑے میں لپٹے وہ طومار نکال لئے اُس نے بیتؔ لحم پہنچ کر اپنے ساتھیوں کو اِس کی خبر دی لیکن کسی نے قدیم چیزوں میں دلچسپی ظاہر نہ کی۔ تاہم بیت لحم کے ایک سُریانی آرتھیوڈاکس مسیحی نے جو کپڑے کا تاجر تھا ان طوماروں کو بیچنے کی لئے رضامندی ظاہر کی، اُس نے ایک مقامی موچی کاندو سے بات کی لیکن سودا طے نہ ہوسکا اُس سُریانی مسیحی نے یروشلیم ؔ میں اپنے کلیسائی سربراہ سے بات کی تو انہوں نے تقریباً چار پانچ طومار چوبیس پونڈز کے عوض خرید لئے اور دیگر طومار ایک آثار فروش نے سات پونڈز میں خرید لئے جو بعد میں عبرانی یونیورسٹی یروشلیم پہنچ گئے۔*سُریانی آرچ بشپ اثناسیسؔ یشوع سموئیل نے طومار خرید کر سُریانی آرتھوڈاکس مقدس مرقس کے راہب خانہ کے سُپرد کردئے، یہ راہب خانہ یروشلیم ؔ کے اُس حصہ میں واقع تھا جو بعد میں عربوں کے حصہ کے قبضہ میں چلا گیا۔ آرچ بشپ نے فوراً پہچان لیا کہ یہ قدیم نسخے عبرانی زبان میں ہیں لیکن وہ یہ متعین نہ کرسکے کہ یہ نسخہ جات ہیں کیا۔!
جولائی 1948 میں آرچ بشپ سموئیلؔ نے یروشلیم میں واقع ’’ مدرسہِ بائبل‘‘ نامی ایک ایسے ادارہ سے رابطہ قائم کیا جہاں بائبل اور آثارِ قدیمہ کے مطالعہ پر بڑا کام ہورہا ہے اسی عرصہ کے دوران ایک ولندیزی عالم پروفیسر جے ون ورپلوگؔ جو وہاں درس دینے کیلئے آیا ہوا تھا، راہب خانہ میں آیا تاکہ ان قدیم نسخوں کو دیکھ سکے۔ اس نے ایک نسخہ کو پہچان کر کہا کہ یہ یسعیاہؔ نبی کی کتاب کا عبرانی متن ہے جو بہت قدیم ہے لیکن مدرسہ بائبل کے ایک دوسرے عالم نے اس سے اتفاق نہ کیا ۔ پروفیسر پلوگؔ نے بھی اسکی طرف مذید دھیان نہ دیا۔
اُسی سال نومبر کے آخر تک وہ طومار جو آثارقدیمہ کی اشیاء فروخت کرنے والے نے خریدے تھے، اُن مرتبانوں سمیت جن میں سے یہ دریافت ہوئے تھے، عبرانی یونیورسٹی یروشلیمؔ کے شعبہ فلسطینی آثارِ قدیمہ کے پروفیسر العزر ؔ ایل ۔ سوکینک نے یونیورسٹی کیلئے خرید لئے۔ اُس وقت تک وہ اُن طوماروں سے بالکل بے خبر تھا سُریانی آرتھوڈاکس راہب خانہ کے پاس تھے ۔ اُسی سال پروفیسر سوکنیک نے ایک اور نسخہ بھی خرید لیا جس کے لئے عبرانی یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر یہوداہؔ ایل۔ میگنس نے فوری طور پرراقم فراہم کردی پروفیسر سوکنیکؔ کے ہمخدمت پروفیسر ببرکروتؔ نے اُن مُسودات کو کھولنے کا نازک اور اہم فریضہ سنبھال لیا۔
جنوری 1947 میں پروفیسر سوکنیک ؔ اور سُریانیوں کے مابین وائی۔ایم۔سی۔اے پروشلیم میں ملاقات ہوئی جس میں پروفیسر موصوف کو چند دنوں کے لئےب راہب خانہ کے طومار مُستعار لینے کی اجاززت مل گئی ۔ 6 فروری 1948 کو اُس نے وہ طومار لوٹا دئے جن میں سے ایک طومار یعیساہ کی کتاب کا عبرانی متن تھا جس کا کچھ حسہ اُس نے دلچسپی کیلئے نقل کرلیا تھا ۔ اس کے بعد ایک اور ملاقات کا اہتمام کیا گیا جس میں آرچ بشپ سموئیل اور یونیورسٹی کے صدر کی موجودگی ضروری تھی تاکہ طوماروں کا سودا پاسکے چند نامساعدِ حالات کی وجہ سے یہ ملاقات نہ ہوسکی ۔
اٹھارہ فروری 1948 کو یروشلیم کے امریکن اسکول آف اوزنٹیل ریسرچ کے قائمقام ددائرئکٹر جان سی ۔ ٹریور کو راہب خانہ کے فادر پطرس سومی نے فون پراطلاع دی کہ وہ اُن قدیم نسخوں کودیکھے کہ وہ کیا ہیں ۔ اگلے روز فادر سومی پانچ وماروں کو لپیٹ کر اُس کے پاس لے آیا۔ ٹریور نے پہچان لیا کہ اُن میں سے ایک طومار عبرانی زُبان میں یسعیاہ نبی کا صحیفہ ہے ۔ اُس نے آرچ بشپ سموئیل سے اجازت طلب کی کہ طوماروں کو امریکن سکول میں لاکر تصویریں اُتاری جائیں۔
اِکیس فروری 1947 کو یہ طومار اسکول میں لائے گئے یسعیاہ نبی کے طومار کی چند تصاویر جان ہاپکنز یونیورسٹی بالٹی مور کے پروفیسر ڈبلیو۔ ایف البرائیٹ کو بذریعہ ہوائی ڈاک ارسال کی گئی۔ اس نے ایک پرمسرت جوابی خط میں لکھا کہ یہ یعیساہ نبی کی کتاب ہے جس کا تعلق سو قبل مسیح سے ہے ۔ یہ انکشاف بڑا اہم تھا کیونکہ اُس وقت تک موجود قدیم ترین نسخے صرف دسویں صدی عیسوی تک کے زمانہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن اِس دریافت سے تقریباً دو ہزار سال پرانے عبرانی متن تک رسائی ممکن ہوگئی ۔
آرچ بشپ سموئیل اِس انکشاف پر اِس قدر مُتاثر ہوا کہ اُس نے ایک ہفتے کے اندر اندر یہ طومار باہر محفوظ مقام پر منتقل کردِئے جومحکمہ عتیقیات کی اجازت کے بغیر برآمد کرنا ایک قانونی جرم تھا ۔
مئی 1948 میں جب فلسطین سے برننانوی راج ختم ہوگیا تو اسرال کی موجودہ آزاد ریاست وجود میں آئی ۔ جب اسرائیلی اسمبلی کا اجلاس فراہم ہوا تو پروفیسر سوکینک نے ہر رُکن کی نشست پر یعسیاہ چالیسویں باب کی وہ نقل فرایم کی جو اُس نے سُریانی راہب خانہ کے نسخہ سے نقل کی تھی ۔ اِس موقع پر یسعیاہ چالیسویں باب کے یہ لفاظ ’’تسلی دو تم میرے لوگوں کوتسلی دو‘‘یہودیوں کےلئے انتہائی بِرمحل معلوم ہوتے ہوں گے ۔
عرب اسرائیل کھچاوء کی وجہ سے اس میں کوئی کام سائنسی بُنیادوں نہ ہوسکا تاہم 15 فروری تا 5 مارچ 1948 کے دوران اُس غار کی مذید کھدائی ہوئی جس میں سے یہ طومار دریافت ہوئے تھے ۔ یہ کام حکومتِ اُردن کے شُبعہ عتیقیات کے لینکیسٹر ہاروڈنگ اور مدرسہ بائبل کے آر۔ ڈی وُو نے سرانجام دیا ۔ انہوں نے وہاں سے بائبل کی کتب ؛ اباکرفا اور بعض دیگر کتب کے سینکڑوٰن حسے دریافت کئے۔
1949 میں آرچ ببشپ سہموئیل یہ قیمتی نسخہ جات لیکر امریکہ پینچ گیا جہاں اُس نے یہ نسخے چھاپنے کی غرض سے یروشلیم اور بغداد میں واقع امریکن اسکول آف اوزنٹیل ریسرچ کے صدر مقام (واقع امریکہ) کے سپرد کردئے۔ یہ کام ڈاکٹر ٹریور اور ڈاکٹر ڈبلیو۔ اییچ براؤن لی نے آئندہ چند سالوں میں سر انجام دیا آخرکار یہ طومار سُریانیوں سے پروفیسرسوکینک کے بیٹے جنرل لگایلل یادن کی معرفت اسرائیلی حکومت نے 13 فروری 1955 کو ڈھائی لاکھ امریکی ڈالرز کے عوض خرید لئے ۔ اس وقت کے اسرائیلی وزیرإ اعظم نے ان اعلان کیا کہ ان تمام ننسخہ جات کو عججائب گھر کے ایک خوصی کمرہ میں رکھا جائے جس کا ننام معبد الکتاب ہوگا۔ 1951 تا 1954 عیسوی کے درمیان ’’خربتِ قمران‘‘(قمران کے کھنڈروں) کی کھدائی کے دوران بہت سے قیمتی نسخے دریافت ہوئے ۔
1952عیسوی میں غار نمبر 4 سے تقریباً چار سو طوماروں کے چالیس ہزار ٹکرے دریافت ہوئے ۔ اُس وقت اُردن کی حکومت نے ایک مربع انچ کی قیمت ایک پونڈ مقرر کی تھی ۔ جس سے ایسے چرواہے کافی امیر ہوگئے جو ان چیزوں کی تلاش کرتے رہتے تھے ۔ اسی طرح کے گیارہ غاروںمیں سے یہ ادبی پارے دریافت ہوئے ۔ آج عبرانی عہدِ عتیق کی آستر کی کتاب کے علاوہ تمام کتب کے ایسے ہی نسخہ جات موجود ہیں جو قمران سے دریافت ہوئے ہیںاور انکا تعلق دوسری صدی ق م سے لیکرپہلی صدی عیسوی کے زمانہ سے ہے ۔
طوماروں کی عمر کا تعین
بحرہ قمران کے طوماروں کی عمر کا تعین کوئی ذہنی اختراع نہیں بلکہ اسپر مندرجہ ذیل تین پہلوؤں سے سائنسی بنیادوں پر کام ہوا ہے ۔
۱۔ حروفِ تہجی کی تاریخ کی ترتیب :- ان طوماروں میں جس انداز سے عبرانی یادیگر زبانوں میں حروف لکھے گئے ہیں ماہریں کا خیال ہے کہ وہ دوسری صدی ق م سے پہلی صدی عیسوی کا انداز ہے ۔ ڈاکٹر البرائیٹؔ اس خیال کا حامی ہے ۔
ب۔ظروف سازی:-ماہری ظروف سازی کی تاریخ سے بھی اندازہ لگاتے ہیں کہ جو ظروف ایسنی فرقہ کے زیرِ استعمال تھے اور جن مرتبانوں میں طومار محفوظ تھے وہ بھی دوسری صدی ق م سے پہلی صدی عیسوی کے زمانہ سے متعلق ہیں ۔
ج۔ کتان :- ماہرین نے سائنسی بنیادوں پر اُن کتانی ٹکروں پر بھی کام کیا ہے جن میں یہ طومار لپٹے ہوئے تھے ۔ اس تجزیہ کے مطابق بھی یہ طومار دوسری صدی ق م سے لیکر پہلی صدی عیسوی کے زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔
ابتدائی طوماروں کی شناخت
ابتدائی دریافت کے چند اولین طومار حسبِ ذیل ہیں :
ا۔ سُریانی راہب خانہ کے طومار
وہ طومارجو یروشلیم کے سُریانی اارچ بشپ سیموئیل نے راہب خانہ کیلئے خریدے اور بعد میں فروخت کردئے ؛تعداد میں چار تھے۔
۱۔یسعیاہ کا طومار ؛ یسعیاہ نبی کے صحیفہ کا مکمل طومار چمڑے کے ستائیس اوراق پر لکھا ہوا ہے اور جو ایک دوسرے سے سلے ہوئے ہیں ۔ یہ طومار چوبیس فُٹ لمبا اور تقریباًً دس انچ چوڑا ہے ۔ اسے سینٹ مارک یسعیاہ کا طومار بھی کہتے ہیں۔ اس طومار کی ایک نقل فیتھ تھیولاجیکل سیمنری گوجرانوالہ اور مذید ایک نقل پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور کے عجائب گھر میں موجود ہے ۔( اسکی ایک عدد نقل مشیاخ تھیولاجیکل ویو کی لائبریری کا حصہ بھی ہے )
۲۔ نظم وضبط کی کتاب : یہ طومار تقریباً چھ فُٹ لمبا اور ساڑھے نوانچ چوڑاہے ۔ اس میں اُس علاقہ میں بسنے والے اسینی فرقہ کے قواعد و ضوابط درج ہیں ۔
۳۔حبقوق کی تفسیر: یہ طومار حبقوق نبی کے صحیفہ کے پہلے دو ابواب کی عبرانی زبان میں تفسیر ہے ۔ یہ چمڑے کا طومار تقریباً پانچ فُٹ لمبا اور چھ انچ چوڑا ہے۔
۴۔ پیدائش کی کتاب کا اپاکرفان:یہ طومار نو فُٹ لمبا اور پارہ انچ چوڑا ہے ، یہ ارامی زُبان میں پیدا کی کتاب کے چند ابواب ہیں۔ اس میں لمکؔ، حنوکؔ، نوح ؔاور ابراہامؔ سے متعلق کچھ اضافی باتیں ہیں ۔
ب۔عبرانی یونی ورسٹی کے طومار
وہ طومار جو عبرانی یونیورسٹی یروشلیم کیلئے پروفیسر سوکینک نے خریدے حسبِ ذیل ہیں۔
۱۔ یسعیاہ کا طومارِ ثانی: یہ یسعیاہ کی کتاب کا ایک اور طومار ہے۔ اس کے پہلے سینتیس ابواب اچھی حالت میں نہیں ہیں لیکن ابواب 38 تا 66 بیت اچھی حالت میں ہیں۔
۲۔نور کے فرزندوں کی تاریکی کے فرزندں سے جنگ :- یہ طومار فرزندانِ نور کے لئے مقدس جنگ لڑنے کا ہدایت نامہ ہے۔ اس کی لمبائی ساڑھے نو فٹ اور چوڑائی چھ انچ ہے۔
۳۔ شکر گذاری کے مزامیر: یہ طومار ایسے مزامیر پر مشتمل ہے جو اسینی فرقہ اپنی عبادات میں استعمال کرتا تھا۔ آجکل یہ ساتوں ابتدائی طومار یروشلیم کے عجائب گھر میں موجود ہیں۔
دوربین العہدین کے ادب نے جس میں عبرانی فہرست مسلمہ کے علاوہ یونانی ہفتادی ترجمہ، ارامی تارگیم، اپاکرفاِ عہد عتیق، فرضی تصانیف اور قمران کے بہت سے طومار شامل ہیں بائبل مقدس کی قدامت، اصلیت اور صحت کی ناقابلِ تردید شہادت پیش کی ہے۔ اس ادب کی وجہ سے کتابِ مقدس کے موجودہ متن کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ مجموعی طور پر جب ہم عہد عتیق کی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ خدا قوموں اور انسانوں کی زندگی میں مداخلت کرنے والا خدا ہے۔ وہی وقتوں اور زمانوں کو تبدیل کرتا ہے وہی بادشاہوں معزول اور قائم کرتا ہے۔ (دانیل 12:2 الف) تاریخِ بائبل اور تاریخ عالم پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ بادشاہتیں، قومیں اور مملکتیں برپا ہوئیں اور وقت گذرنے کے ساتھ ماضی کا حصہ بنتی چلی گئیں تاریخ میں بڑے بڑے مطلق العنان حکمران برپا ہوئے لیکن مٹ گئے ۔ ان تمام تاریخی حالات میں اور بالخصوص بائبل کے تاریخی واقعات میں خداوند عالم دنیا پر ظاہر تھا کہ انسان مکمل گراوٹ کا شکار ہے۔ بائبل کی تاریخ درحقیقت کہانی ہے اس بات کی کہ انسان بگاڑ کا شکار ہے اور خدا اسے پیار کرتا ہے۔ اسی پیار کی بدولت جب وقت پورا ہوگیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا خداوند مسیح کی پیدائش سے تاریخی اعتبار سے ہم عہد جدید کے دور میں داخل ہوجاتے ہیں۔
ختم شد