پروفیسر اسلم ضیائی کے قلم سے ’’تالمود سے اقتباسات از ایچ پلانو، مترجم: اسٹیفن بشیر، ناشرین: مکتبہ عناویم پاکستان‘‘ کیلئے
بنی اسرائیل کو بیان کرنے کے لیے بائبل مقدس میں بنیادی طور پر تین اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔ بائبل مقدس کے بعض حصوں میں انہیں ’’عبرانی‘‘ کہا گیا ہے ۔عبرانی لوگ ’’عبؔر‘‘( پیدائش ۱۱ : ۱۰ ) کی اولاد ہیں ۔ ’’عبؔر‘‘کی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے بزرگ ابراہیم( پیدائش ۱۴ : ۱۳ ) کو ’’عبرانی ‘‘بزرگ یوسف ( ۳۹ : ۱۷ ) ’’عبری‘‘اور بنی اسرائیل کو من حث القوم/ جماعت ’’عبرانیوں‘‘ ( خروج ۵ : ۳ ؛ ۷ : ۱۶ ؛ ۹ : ۱ ؛ ۱۳ ) کہا گیا ہے ۔ دوسری اصطلاح ’’ بنی اسرائیل ‘‘ ہونے کی وجہ سے ’’ٓسرائیلی ‘‘ ہے جو اہل یہودی کی شناخت کییلئے استعمال کی جاتی ہے ۔ بنیادی طور پر لفظ اسرائیل ’یعقوب‘‘ کا نام ہے(پیدائش ۳۲:۲۸) اور اس کی اولاد ہونے کی وجہ سے اس کے بیٹوں کی اولاد کو ’’بنی اسرائیل کہا جاتا ہے ( خروج ۱ : ۱۲ ؛ ۱۳ ) ۔ آج کل لفظ اسرائیل اس خود مختار ریاست کے لیے مستعمل ہے جو ۱۴ مئی ۱۹۴۸کو وجود میں آئی ۔اس ریاست کے باشندہ کو آج اسرائیلی کہا جاتا ہے خواہ مذہبی اعتبار سے وہ غیر اسرائیلی کیوں نا ہو۔لیکن بائبل مقدس میں یہ اصطلاح بنی اسرائیل کے لیے مستعمل ہے ۔ ( رومیوں ۹ : ۴ ؛ ۶ ) تیسری اصطلاح یہودی ہے ۔( نحمیاہ ۵ : ۱ ؛ ۱۳ : ۲۳ ؛ آستر ۳ : ۴ ؛ ۶ : ۱۳ )
عبرانی / اسرائیلی / یہودی نسل کا طرہ امتیاز بیان کرتے ہوئے پولوس رسول لکھتا ہے کہ خدا کا کلام اُن کے سپرد ہوا (رومیوں ۳ : ۲ ) ایک اور مقام پر پولوس رسول فرماتا ہے کہ وہ اسرائیلی ہیں اور لے پالک ہونے کا حق اور جلال اور عہوداور شریعت اور عبادت اور وعدے ان ہی کی ہیں۔اور قوم کے بزرگ ان ہی کے ہیں اور جسم کے رو سے مسیح بھی ان ہی میں سے ہوا جو سب کے اوپر اور ابد تک خدائے محمود ہے۔آمین ( رومیوں ۹ : ۴ - ۵ ) ۔ایک لحاظ سے بنی اسرائیل خدا کے کلام کے اس حصہ کے جسے پرانا عہد نامہ یا عہد عتیق کہا جاتا ہے امین رہے ہیں ۔مسیح خداوند اور ابتدائی رسولوں اور ایمانداروں کی ’’ بائبل ‘‘ اس وقت تک پرانا عہد نامہ ہی تھا کیونکہ عہد جدید کی تمام کتب خداوند مسیح کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کے بعد احاطہ تحریر میں آئیں۔اہل یہود کے ایمان کے مطابق ’’بائبل مقدس‘‘ صرف عہد عتیق ہے جبکہ مسیحی ایماندار پرانےاور نیے دونوں عہد ناموں کے لیے بائبل کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ۔
اہل یہود کے نزدیک اُن کی بائبل مقدس ( عبرانی عہد عتیق ) خدا کا کلام ہے ۔لیکن اسے سمجھنے کے لیے یہودی علما نے بعض دیگر مجموعے بھی تیار کئے ہیں جنہیں معتبر اور مستند مانا جاتا ہے۔ یہ مجموعے یہودی تاریخ کے مختلف ادوار میں بتدریج وجود میں آئے ۔ان میں سے چند ایک کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا جائے گا تا کہ مسیحی ایماندار بھی ان سے شناسائی حاصل کر سکیں ۔
مشنہ
مشنہ عبرانی لفظ ہے جس کے معنی ’’اعادہ ،دہرائی یا ہدایت و تعلیم ‘‘کے ہیں مشنہ ابتدائی ربیوں کا قانونی / شرعی ضابطہ ہے ۔جس کی تدوین کا سہرا دوسری صدی عیسوی کے یہودا ہانسی کے سر ہے ۔مشنہ کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
• زیریم ( بیجوں ) اس کا واسطہ زراعت سے ہے ۔
• موعد ( مقررہ عیدیں ) اس حصے میں سبت اور عیدوں سے متعلق قوانین ہیں۔
• نِشیم ( عورتیں ) اس میں شادی طلاق اور منت ماننے کے قوانین ہیں ۔
• نزیکین ( نقصانات ) اس میں دیوانی اور فوجداری نوعیت کے جرائم سے متعلق قوانین شامل ہیں ۔
• قداشیم ( پاک چیزیں )اس حصہ میں جانوروں کو شرع کے مطابق ذبح کرنے ، جانوروں کی قربانی چڑھانے اور چیزوں کی تقدیس کرنے سے متعلق قوانین پائے جاتے ہیں ۔
• طہورت(پاکیزگیاں ) آخری حصہ میں شرعی طہارت سے متعلق ضوابط موجود ہیں ۔ایک لحاظ سے یہ پرانے عہد نامہ کی تفسیر کرنے کا عمل اور طریقہ تھا ۔پرانے عہد نامہ کے بعد یہودیوں کے نزدیک سب سے مستند اورمعتبر سند مشنہ ہی ہے ۔
گیمارا ( Germara )
بنیادی طور پر’’ گیمارا‘‘ بھی عبرانی لفظ ہے جس کے معنی ’’ علم ‘‘’’عرفان ‘‘’’ سیکھنا‘‘وغیرہ کے ہیں۔ گیمارا بنیادی طور پر مشنہ کی تفسیر ہے ۔اسی لیے بعض عالم گیمارا کے لفظی معنی ’’تکمیل یا اتمام ‘‘بیان کرتے ہیں ۔ اس میں مشنہ کے زیادہ تر حصوں کی توسیع موجود ہے ۔ اس میں یہودی تاریخ اور اُس زمانہ کے رسم و رواج سے متعلق معلومات بھی دستیاب ہیں ۔ گیمارا بابل اور فلسطین میں الگ الگ یہودی علما اور ربیوں نے ترتیب دیا ۔ یہ کام تیسری اور چوتھی صدی عیسوی میں جبکہ بعض علما کے مطابق تیسری اور چھٹی صدی عیسوی کے درمیانی حصہ میں وجود میں آیا ۔
تالمود ( talmud )
روایتی طور پر اہل یہود ایمان رکھتے ہیں کہ خدا نے کوہ سینا پر بزرگ موسیٰ کو لکھی ہوئی شریعت دی ۔تحریری احکام کے ساتھ ساتھ خدا نے موسیٰ کو غیر تحریری احکام بھی دئیے یہ غیر تحریری شریعت سینہ بہ سینہ اور پشت در پشت منتقل ہوتی رہی ۔ بعض یہودی علما کا موقف یہ ہے کہ غیر تحریری شریعت اور احکام موسیٰ کے زمانہ سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ یہ عزرا فقیہ اور کاہن کے زمانہ کے بعد میں آنے والا زبانی مجموعہ ہے۔ عزرا کے عبادت خانوں میں شرع کے عالم عہد عتیق سے متعلق فہم و فراست کے خزانے سمجھے جاتے تھے۔وہ اپنے اذہان میں جہاں تک ممکن تھا کلام سے متعلق تفاسیر اور آرا کو محفوظ رکھتے تھے۔ لیکن پھر محسوس کیا گیا کہ بہترین سے بہترین انسانی ذہن بھی دستیاب زبانی مواد یاد نہیں رکھ سکتا۔ یہودی عالموں نے ضروری سمجھا کہ گذری پشتوں کے علم فہم فراست اور کلام پاک سے متعلق ان کے تمام نظریات کو یکجا کیا جائے تا کہ آنے والی پشتیں ان سے ہدایت و رہنمائی حاصل کر سکیں ۔
ملاکی کے بعد اسرائیل میں کوئی مستند نبی برپا نہ ہوا ۔چار صدیوں کے بعد یوحنا اصطباغی نے اس سکوت کو توڑا ملاکی کے بعد کے زمانہ میں ایک طرف تو مستند نبوت کا فقدان تھا اور دوسری طرف اہل یہود کی زندگی میں بیرونی دنیا کے ساتھ سیاسی معاشی اور سماجی تعلقات کے سلسلہ میں نئی نئی سمتیں ابھر کر سامنے آ رہی تھیں ۔بنی اسرائیل کی زندگی میں ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ اس شریعت کی خوشنودی اور بجا آوری کے لیے جو شریعت ( پیدائش سے استثنا ) کی پانچ کتب اسفار خمسہ میں موجود ہے مزید تشریح اور توضیح درکار ہے ۔خاص طور پر یہ ضرورت ان لوگوں نے محسوس کی جو بابل کی اسیری سے واپس آ کر یروشلم میں آباد ہوئے تھے ۔
ابتدائی طور پر یہ احکام ( غیر تحریری ) آزاد تشریح کے ذریعے سکھائے جاتے تھے ۔جو بائبل مقدس کے کسی متن یا عبارت پر مبنی ہوتی تھی ۔احکام سیکھانے کے اس طریقہ کو اصطلاحی طور پر ’’مدراش ‘‘( midrash ) کہتے تھے ۔لفظ مدراش عبرانی’’دراش ‘‘سے ماخوذہے جس کے معنی ’’معلوم کرنا‘‘ یا’’ مطالعہ کرنا ‘‘کے ہیں۔اس طرح ’’مدراش ‘‘ کا مطلب ہے تشریح تفسیر وغیرہ کرنا ۔
مدراش کو دو ذیلی حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔اگر عہد عتیق کا کوئی ایسا متن یا عبارت زیر غور ہو جس کی نوعیت قانونی یاشرعی ہوتی تو اس کے بارے میں تعلیم دینے ، تشریح یا تفسیر کرنے کے عمل کو مدراش حالاکاہ( midrash Halakah ) کہا جاتا تھا ۔عبرانی لفظ حالاکاہ کے معنی ہیں وہ جس کے مطابق انسان چلے،چلنا وغیرہ ۔اگر پرانے عہد نامہ کا کوئی ایسا متن یا عبارت زیر غور ہو جس کا واسطہ روحانی زندگی سے ہو اور قانونی تشریح سے نا ہو اسے مدراش ہاگادہ ( midrash haggadah ) کہتے تھے ۔عبرانی لفظ ہاگادہ کے معنی بیان کہانی وغیرہ کے ہیں ۔یہ ایسےمتون پاک کی تشریح و تفسیر ہوتی تھی جن کے بارے میں پہلے سے کوئی واضح بات دستیاب نا ہو ۔مدراش کا عمل نحمیاہ ۸ : ۷ ؛ ۸ میں پایا جاتا ہے جہاں کلام پاک کی تلاوت ہو رہی تھی اور بعض ذمہ دار لوگ کلام کی باتیں لوگوں کو سمجھاتے جا رہے تھے ۔
عزرا کے بعد جو دینی اساتذہ لوگوں کو تعلیم دینے کا فریضہ سر انجام دیتے تھے انہیں دوسری صدی ق م تک سوفریم یعنی کتاب کے لوگ ( سِفر عبرانی میں کتاب کو کہتے ہیں ) یا ’’فقیہ ‘‘کہا جاتا تھا ۔ ’’سوفریم‘‘ کے بعد جن لوگوں نے کلام کی تدریسی خدمت سر انجام دی انہیں’’حسدیم‘‘( پاک لوگ ) کہا جاتا تھا ۔حسدیم کے بعد جن لوگوں نے یہ خدمت سنبھالی انہیں ۱۲۸ ق م کے لگ بھگ ’’فریسی‘‘ ( الگ کئے ہوئے ) کہا جاتا تھا۔سوفریم ،حسدیم ، اور فریسیوں غرض کہ ہر گروہ نے مدراش کی تشکیل میں کوئی نہ کوئی حصہ ڈالا یہ غیر تحریری اور زبانی احکامات بڑھتے چلے گئے اور ایک پشت سے دوسری پشت تک سینہ بسینہ منتقل ہوتے گئے ۔
تیسری اور پہلی صدی ق م کے درمیان تعلیم دینے والے اساتذہ کی پانچ’’جوڑیاں‘‘برپا ہوئیں جنہیں ’’زوگت‘‘ کہا جاتا تھا ۔اس اصطلاح کے معنی ’’جوڑا یا جوڑی ‘‘کے ہیں ۔علما کے یہ پانچ جوڑے ( ۱ ) یوؔس بن جوزؔر اور یوؔس بن یوؔحنان ( ۲ ) یشوؔع بن پراحیاہؔ اور اربیلا کا رہنے والا نتیؔ ( ۳ ) یہوداہؔ بن تبیؔ اور شمونؔ بن شتیاؔہ ( ۴ ) سمعیاہؔ اور اوتالونؔ ( ۵ ) ہلل ؔاور شمائیؔ مسیحی حلقوں میں زیادہ تر ہلل اور شمائی ہی پہچانے جاتے ہیں۔’’زوگت‘‘ کا اپنا انداز یہ تھا کہ وہ غیر تحریری شریعت یا احکام کو پاک کلام ( تحریری ) کی تائید کے بغیر بھی سکھاتے چلے جاتے تھے۔اس بات سے تنگ آ کر بعد کی پشتوں نے تعلیم دینے کا ایک نیا انداز رائج کیا جسے ’’مشنہ‘‘ ( اعادہ دہرائی ) کہا جاتا تھا اور تعلیم دینے والوں کو ’’ تنیم‘‘کہا جاتا تھا جن کا مطلب ہے زبانی ترسیل یا منتقل کرنیوالے ۔
آنے والی پشتوں میں مدراش اور مشنہ شانہ بشانہ ساتھ ساتھ تھے ۔ربی اکیبؔا جس نے ۱۳۵ عیسوی میں روم کے ہاتھوں ایذائیں برداشت کرتے کرتے وفات پائی مشنہ کے اسباق اور تعلیمات کو کسی حد تک یکجا کر کے ترتیب دے لیا تھا ۔اس کی موت کے بعد اس کے شاگرد ربی میئر ( ۱۱۰ ۔۱۷۵ عیسوی )نے کام جاری رکھا اور ربی یہوداہؔ ہانسی ( ۱۳۵ ۔۲۱۷ عیسوی ) نے بھی یہ کام جاری رکھا ۔یہودا ہؔ ہانسی کے بعد جن علما نے ۲۰۰ ء ۔۵۰۰ء کے درمیان کام جاری رکھا انہیں ’’اموریم ‘‘( بولنے والے کلام کرنے والے وغیرہ ) کہا جاتا تھا ۔اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ غیر تحریری شریعت یا احکام مشنہ اور گیماراکی مرحلہ وارترقی میں سےگزرے ہیں۔مشنہ اور گیمارا کے امتزاج کو تالمود کہا جاتا ہے۔اس طرح عہد عتیق کے بعد تالمود اہل یہود کے نزدیک سب سے زیادہ مستند اور معتبر یہودی ادب ہے ۔
تالمود کی اقسام اور اہمیت
تالمود کی دو اقسام ہیں ۔ایک تالمود کو فلسطینی تالمودیا یروشیلمی تالمود کہا جاتا ہے۔ اسے بنی مغرب کی تالمود بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کی زبان مغربی ارامی ہے۔ یہ تالمود دوسری، تیسری اور چوتھی صدی عیسوی میں یہودیوں کی ایذارسانیوں کی وجہ سے نہ مکمل رہ گئی اس تالمود پر تبریاس میں کام ہوا ۔دوسری تالمود بابلی تالمود کہلاتی ہےاور یہ مشرقی ارامی میں لکھی گئی تھی۔ اس پر بابل میں رہنے والے یہودی علما نے کام کیا ہے یہ فلسطینی تالمود سے تین گنا بڑی ہے اور یہودیوں میں بابلی تالمود کو مستند اور معتبر مانا جاتا ہے نہ کہ فلسطینی تالمود کو ۔
یہودی قوم اور مذہب کی بقا بڑی حد تک تالمود کی مرہون منت ہے ۔ایذاوں کے زمانہ میں وہ اپنی تسلی کے لیے تالمود سے اسباق حاصل کرتے تھے ۔ایک دور آیا کہ تالمود کو ختم کرنے کے لیے بعض غیر یہودی قوتوں نے سر اٹھا لیا ۔۱۷ جون ۱۲۴۲ ء کو پیرس میں تالمود کو جلایا گیا تا کہ یہودیت کو دبایا جا سکے اور لوگ اس کا مطالعہ نہ کر سکیں ۹ ستمبر ۱۵۳۳ ء میں ربیوں کے بہت سے متون روم میں جلائے گئے ۔۱۷۵۷ ء میں تالمود کی بہت سی جلدیں پولینڈ میں جلائی گئیں۔بابلی تالمود کے بعض حصوں کو مسیحیت کے خلاف سمجھا جاتا تھا لیکن تالمود کے مختلف زبانوں میں تراجم کی وجہ سے یہودیوں اور یہودیت کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں اب دور ہو گئی ہیں ۔
تالمود دنیا بھر میں اسرائیل کی موجودہ ریاست سمیت پھر مقبولیت حاصل کر رہی ہے ۔اسے یہودی مدرسوں میں نصاب کا درجہ حاصل ہے ۔ذراعت ، یہودی تہواروں ، شادی کے قوانین ، رفاع عامہ ، خیرات اور سماجی انصاف سے متعلق اس سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے ۔مسیحیوں کی نزدیک تالمود اگر چہ وہ مقام نہیں رکھتی جو پرانے عہد نامہ کا ہے ۔ جب مشنہ گیمارا تشکیل کے مراحل میں تھےتب نئے عہد نامہ کی کتب وجود میں آ رہی تھیں ۔ہلل اور شمائی کے مکاتب فکر زوروں پر تھے ۔بزرگوں کی روایت ( متی ۱۵ : ۲ ، ۳ ، ۶ مرقس ۷ : ۳ ، ۸ )کے چرچے تھے ۔اگر عہد جدید کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے یہودی ادب سے جو اس وقت تشکیل پا رہا تھا شناسائی حاصل کریں تو یہ عہد جدید کی تفسیر و تشریح کے لیے سود مند ثابت ہو سکتا ہے ۔
جہاں تک میری یاداشت کا تعلق ہے ۔اردو زبان میں تالمود کا کوئی حصہ موجود نہیں ۔۱؎اگر ہے تو وہ میرے علم میں نہیں علم دوست حلقوں کو اس تالمودی ادب کو ذوق شوق سے پڑھنا چاہئے جو اب ہماری اپنی زبان میں دس
حواشی:
1؎:اردو زبان میں پروفیسر اسلم ضیائی کی زندگی میں حقیقتاً تالمود کا اردو ترجمہ یا اسکا کوئی خاص حصہ موجود نہ تھا ’’تالمود سے اقتباسات‘‘ بھی تالمود نہیں بلکہ انگریزی کتاب ’’دی سلیکشنز فرام تالمود ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔ تالمود کے حصے کا اردو ترجمہ’’اخلاقیات الآباء‘‘ کے نام سے ’’حضرت حنین وقاص خان‘‘ صاحب ترجمہ کر ’’مشیاخ تھیولاجیکل ویو پبلیکشنز‘‘ کے تحت شائع کرچکے ہیں ۔
یونی کوڈ ٹائپنگ:راجر ؔپال
نیک نیتی سے مفادہِ عامہ کیلئے ری ٹائپ اور پی ڈی ایف بنا کر شائع کیا گیا